Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 رات کا نامعلوم کون سا پہر تھا۔
بے خبر سوئی ہوئی پری کی کچھ عجیب کھٹر پٹر کی آوازوں سے آنکھ کھلی تھی۔ اس نے چہرے سے معمولی سا کمبل ہٹا کر دیکھا کمرے میں نائٹ بلب کی روشنی میں دادی اسے کارپٹ پر بیٹھی دکھائی دی تھیں۔ ابھی وہ کمبل سے نکلنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ دادی نے ایک نظر اس کو اس طرح دیکھا گویا یہ تصدیق کرنا چاہ رہی ہوں کہ وہ بیدار تو نہیں ہو گئی اور اس لمحے جو بے بسی و بے کسی ان کی بوڑھی آنکھوں میں تھی اس کا بھرم رکھنے والے انداز نے پری جیسی بے حد حساس و گداز دل لڑکی کو پتھر کا بنا دیا تھا وہ کوئی جنبش نہ کر سکی کسی مجسمے کی مانند لیٹی رہ گئی۔
دادی چند لمحے محتاط نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے کے بعد مطمئن ہو کر اپنے کام میں لگ گئی تھیں۔ ان کے سامنے ایک چھوٹی سی خوبصورت جڑاؤ صندوقچی رکھی ہوئی تھی وہ چاندی بنی صندوقچی تھی جس پر سرخ، ہرے، جامنی اور زرد رنگوں اور کندن کا دیدہ زیب کام تھا۔


یہ صندوقچی ان کے بہترین حالات کی نشانی تھی جس کو وہ بڑی حفاظت نقاست سے رکھتی تھیں۔

اس میں ان کی تمام قیمتی چیزیں تھیں۔ یہ کسی وقت میں قیمتی زیورات، تحفوں اور رقوم سے بھری رہتی تھی اور جب آزمائشوں کا دور شروع ہوا تو اچھے دنوں کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں بھی ضرورتوں کے تحت ان سے دور ہوتی چلی گئیں اور اب ان کے پاس ماسوائے ایک طلائی نیکلس سیٹ کے اور کچھ دیگر معمولی سی چھوٹی موٹی چیزوں کے باقی نہ بچا تھا جو وہ کسی کو تحائف کی صورت میں نہیں دی سکتی تھیں۔
صندوقچی میں موجود ہر چیز کا انہوں نے کئی بار بغور جائزہ لیا اور پھر مایوس ہو کر انہوں نے اس میں سے نکالا ہوا سامان واپس منتقل کرنا شروع کر دیا تھا اس عمل کے ساتھ ہی ان کے چہرے پر آنسو لکیروں کی صورت میں بہنے لگے تھے۔
”میرے مالک! یہ دن بھی تیری اس گناہ گار بندی کو دیکھنا تھا۔ کسی زمانے میں یہ ہاتھ صدقات و خیرات اور تحفے تحائف بانٹتے نہ تھکتے تھے اور آج…!“ وہ اس وقت اتنی جذباتی اور شکستہ دل ہو رہی تھیں کہ اپنی بڑبڑاہٹ کے تیز ہونے کا ان کو احساس بھی نہ ہوا تھا۔
جو پری دم سادے سن رہی تھی۔ دادی کی طرح اس کے آنسو بھی بے آواز بہہ رہے تھے وہ دھندلائی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہی تھی۔
”یہ کڑا وقت آن پڑا ہے میں خالی ہاتھ بیٹھی ہوں۔ مذنہ اور طغرل جا رہے ہیں اور میں ان کے ساتھ اپنے بیٹا، بہو، پوتے، پوتی کو کوئی تحفہ بھی بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ کیا سوچیں گے وہ لوگ ان کی ماں، ان کی دادی ان سے پیار نہیں کرتی ہے۔
تحائف تو محبت کی نشانی ہوتے ہیں مذنہ اور طغرل کیا کچھ نہ لائے تھے ہر چیز قیمتی اور خوبصورت تھی اور میں تو ان کو معمولی سی چیز بھی دینے کے قابل نہیں رہی ہوں کیا کروں؟ کس سے کہوں؟ فیاض نے تو اپنا فرض ادا کر دیا ہے وہ سب کیلئے تحفے لے آیا ہے مگر میں کہاں سے رقم لاؤں؟ فیاض سے کیا کہوں وہ تو پہلے ہی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور اب بھی تحفے لانے کیلئے اس نے قرض ہی لیا ہوگا۔
“ دادی کو بڑھاپے نے کمزوری عطا کی تھی۔
وہ صندوقچی کو ٹھکانے پر رکھ کر آہستگی سے بیڈ پر دراز ہو گئی تھیں۔ ان سے زیادہ رویا تو نہیں گیا ملال و حسرتوں کے تمام رنگ اپنے چہرے پر سجا کر وہ جلد ہی نیند سے ہم آغوش ہو گئی تھیں۔ مگر کمبل میں منہ چھپائے پری کے آنسو بہتے رہے تھے۔
گہری اداسیاں اس کی روح تک میں اترتی چلی گئی تھں۔ دبیز افسردگی کے سمندر میں وہ ڈوبتی جا رہی تھی وہ کسی بھی صورت دادی جان کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
وہ ساری رات اس کی آنکھوں میں کٹی تھی۔ بڑی اذیت بھری رات تھی دادی کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو گویا اس کے دل پر برستے رہے تھے اس رات کی صبح بڑی اداسیوں کے سنگ نمودار ہوئی تھی۔ فجر کی نماز اس نے دادی کے ساتھ ہی ادا کی تھی۔
پریشانیوں اور تنگ دستی کے احساس نے دادی کی ساری توانائی حوصلے چکنا چور کر دیئے تھے خواہشیں اگر پوری نہ ہوں تو انسان کو بے بسی کا احساس دلاتی ہیں۔
زندگی کا حسن چھین لیتی ہیں۔ خوشیوں کے رنگ پھیکے پڑنے لگتے ہیں وہ تو بچپن سے اس درد کا شکار تھی۔ دادی کے اس درد کو اس سے زیادہ کون محسوس کر سکتا تھا؟ انہوں نے بہ مشکل اشراق کی نماز ادا کی تھی اور لیٹ گئی تھیں۔ پری نے انہیں بیڈ ٹی کے ہمراہ ایک خواب آور گولی دی تھی کہ کچھ دیر بعد ہی وہ گہری نیند سو گئی تھیں۔ ان کو گہری نیند میں محو دیکھ کر پری آہستگی سے بیڈ سے اٹھی اور شال اوڑھ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔
اس کے قدم سٹور روم کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں ٹرنک میں وہ تمام گفٹس محفوظ تھے جو مثنیٰ اور عشرت جہاں کی طرف سے اس کو وقتا فوقتاً ملتے رہتے تھے۔ وہ کبھی ان کو استعمال نہیں کرتی تھی۔ اس کا دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ وہ جانتی تھی وہ گفٹس اس کو خوش کرنے کیلئے اپنائیت کا اظہار کرنے کیلئے بھیجے جاتے ہیں مگر وہ جانتی تھی وہ مہنگے ترین امپورٹڈ چیزیں کبھی بھی ان خوشیوں کا نعم البدل ثابت نہیں ہو سکتیں جو ماں باپ نے علیحدہ ہو کر اس سے چھین لی تھیں۔
اس کے احساسات کے برعکس عادلہ اور عائزہ بہت بے تکلفی سے اس کی چیزیں استعمال کرنے لگی تھیں۔ جس پر اس کو کوئی اعتراض نہ تھا مگر دادی جان نے اس کے گفٹس اپنے ہاتھوں میں ٹرنک میں رکھ کر تالا لگایا اور چابی اپنے پاس رکھنے لگی تھیں۔
وہ چابی ساتھ لے آئی تھی اور دادی کے بیدار ہونے سے قبل وہ اپنی رات بھر کی سوچوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتی تھی۔
###
”یہ بہت اچھی ہے، تم خوامخواہ پریشان رہیں۔“ ان سے تفصیلی بات سن کر عابدی چائے پیتے ہوئے اطمینان سے گویا ہوئے۔
”پریشان، میں تو سخت خوفزدہ ہو گئی تھی۔ فون پر بات کرتے وقت ان کا انداز اتنا جارحانہ تھا مجھے فیل ہو رہا تھا ابھی فون سے نکل کر ہی وہ مجھ پر جوتے برسانا شروع کر دیں گی۔“
ان کے لہجے میں سخت مرعوبیت تھی عابدی مسکرا اٹھے تھے۔
”میں جانتا ہوں ان کے مزاج کو وہ بے حد اصول پسند اور روایت پرست ہیں مگر ان میں خوبی بھی ہے کہ وہ مہمان نواز ہونے کے علاوہ درگزر سے کام لیتی ہیں بے حد شفیق و پر خلوص نیچر ہے ان کی۔“
”جی بالکل ان سے مل کر مجھے احساس ہوا تھا کہ وہ بے حد سوئیٹ ہیں۔“
”شیری کو سمجھاؤ، اگلی دفعہ وہ ایسی اسٹوپڈ حرکت نہ کرے، آفس جا کر میں شیری کی حرکت پر ایکسکیوز کر لوں گا فیاض سے۔
“ وہ اٹھتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوئے تھے۔
”جی بہتر۔“ حسب عادت وہ عابدی کو کار تک چھوڑنے آئی تھیں اور جب وہ اندر آئیں تو ملازم حیران پریشان اپنی جانب آتا ہوا ملا۔
”ارے کیا ہوا خیرو؟ تم اس قدر گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟“
”بیگم صاحبہ، بابا صاحب بے حد غصہ میں ہیں۔“
”کیوں… کیا ہوا؟“
”وہ کسی کی تصویریں تلاش کر رہے ہیں جو مل نہیں رہی ہیں۔
“ ملازم بری طرح گھبرایا ہوا تھا۔ سرد موسم میں بھی اس کو پسینہ آ رہا تھا۔
”تصویریں… آؤ میرے ساتھ۔“
وہ گرم شال لپیٹتی ہوئی تیز تیز قدموں سے آگے بڑھی تھیں اور شیری کے روم میں داخل ہو کر وہ سکتے کی کیفیت کا شکار ہو گئی تھیں۔
”اوہ، کم ان ماما۔ پلیز پری کی فوٹو گراف ڈھوندنے میں میری مدد کریں وہ کہیں گم ہو گئی ہیں۔“
بہت پریشان لہجے میں وہ ان سے مخاطب ہوا تھا۔
اس کے کمرے میں کوئی بھی شے ٹھکانے پر نہیں تھی۔ ایک ہفتے قبل ہی کتنے چاؤ سے اس کے آنے سے قبل اس کا روم ڈیکوریٹ کروایا تھا جسے اجاڑنے میں اس نے گھنٹہ بھی نہیں لگایا تھا۔ وارڈ روب سے تمام کپڑے، کتابیں، کشنز، ڈیکوریشن پیسز، حتیٰ کہ بیڈ سے تکیے اور میٹرس کو بھی دور پھینک دیا گیا تھا۔ کارپٹ پر پاؤں رکھنے کی جگہ نہ تھی اور اس تمام بکھیڑے کے درمیان وہ کسی مسافر کی طرح لٹا پٹا کھڑا تھا اس کے چہرے پر پریشانی ہی پریشانی رقصاں تھی۔
”شیری، یہ کیا حال کر دیا ہے آپ نے روم کا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے خدا نخواستہ یہاں کوئی بہت بڑی ڈکیتی ہوئی ہے۔“
”ڈکیتی ہی تو ہوئی ہے ماما۔“ وہ مضطربانہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”پری کی فوٹو گرافی کی ڈکیتی ہوئی ہے۔ ان سے بڑھ کر قیمتی شے کیا ہو گی یہاں۔“
اس کا لہجہ عجیب تھا ملازم کی موجودگی میں مزید بات کرنا انہیں اچھا نہیں لگا وہ اسے جانے کا کہہ کر گیٹ بند ہونے کے بعد اس سے مخاطب ہوئیں۔
”پری کی فوٹو گرافس تو میں اس کی گرینڈ مدر کو دے آئی تھی پھر وہ آپ کو یہاں کیسے ملیں گی؟“
”ایک کاپی میں نے آپ کو دی تھی اور ایک اپنے پاس رکھی تھی۔“
”کیا، ایک آپ نے اپنے پاس رکھی تھی مگر کیوں؟ میں تو سمجھی تھی آپ نے دونوں دے دی ہیں۔“
وہ سخت متعجب تھیں انہوں نے خاموشی سے بنا دیکھے وہ تصویروں والا لفافہ دادی جان کے ہاتھ میں دے دیا تھا انہیں چیک نہ کیا تھا۔
”ماما پلیز، اس وقت بہت ٹینشن میں ہوں میں، مجھ سے کوئی سوال جواب مت کریں آپ۔ اس خیرو کے بچے کو بلاؤ وہی یہاں کی ڈسٹنگ کرواتا ہے اس نے ہی مس کئے ہیں۔“
اس کے انداز میں غصہ بڑھنے لگا تھا۔
”بابا پہلے ناشتہ تو کر لیں پھر میں خیرو سے…!“
”مجھے بھوک نہیں ماما، مجھے فوٹو گرافس چاہئے۔“
”یہ غلط ہے بابا، یہ چیٹنگ کی ہے آپ نے میں نہیں جانتی تھی آپ نے ایک سیریل رکھ لی ہے یہ اچھا نہیں ہے آپ کے ڈیڈی کو معلوم ہوا تو وہ بھی ناراض ہوں گے اور پری کی فیملی بھی“
”مجھے پروا نہیں، مجھے صرف وہ فوٹو گرافس چاہئے اور بس۔
“ اس نے بے پروائی سے کہا اور تیز تیز آواز میں ملازم کو پکارنے لگا۔
”جی صاحب!“ سہما سہما خیرو اندر آکر گویا ہوا۔
”خیرو۔ تم نے یہاں کوئی تصویروں کا لفافہ دیکھا ہے کیا؟“ شیری کے بگڑے تیور دیکھ کر وہ خود استفسار کرنے لگی تھیں۔
”تصویروں والا لفافہ بیگم صاحبہ، جو آپ کے ہاتھ میں تھا کل۔“
”ہاں، ہاں وہی۔“ شیری نے کچھ کہنے کیلئے لب وا کرنے چاہے تو ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش رہنے کا کہہ کر اس سے مخاطب ہوئیں۔
”جی ہاں بیگم صاحبہ! کل آپ کے جانے کے بعد بابا صاحب باہر گئے تھے تو ان کے ہاتھ میں تھا۔“ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
”میرے ہاتھ میں تھا تم نے دیکھا تھا میرے ہاتھ میں۔“ وہ اس کے قریب آکر پوچھنے لگا۔
”جی… جی صاحب وہ لفافہ آپ نے کوٹ کی جیب میں ڈالا تھا اور چلے گئے تھے میں اس وقت کار کے قریب ہی تھا۔“
”اچھا ٹھیک ہے جا کر بابا کیلئے ناشتہ لگاؤ۔
”جی اچھا۔“ وہ کہہ کر چلا گیا۔ مسز عابدی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا۔
”خیرو یہاں کا بہت پرانا اور وفادار ملازم ہے وہ کبھی بھی غلط بیانی نہیں کر سکتا ہے آپ اچھی طرح یاد کریں اور میرے خیال میں ایک بار جا کر گاڑی میں بھی چیک کر لیں شاید…!“
”یہ اچھا آئیڈیا ہے۔“ وہ ایک جوش کے عالم میں آگے بڑھا۔
”پہلے ناشتہ کر لیں بابا ایسا بھی کیا ہے؟“
”سوری ماما۔
میں ابھی آتا ہوں۔
وہ ہواکی تیزی سے آگے بڑھا تھا مسز عابدی اس کی حرکتوں پر دنگ تھیں۔ اس نے کار کا کونا کونا چھان مارا مگر نتیجہ وہی صفر رہا تھا۔ ناکامی پر اس نے غصے سے دروازہ بند کیا تھا اور اسی لمحے دروازے کے باہر پڑے گہرے اسکریچ پر اس کی نگاہ گئی تھی جو آگے بونٹ تک چلا گیا تھا اور وہ چند لمحے کھڑا حیرانی سے سوچتا رہا کسی بھولے خواب کی طرح اس کو یاد آیا۔
ذہن میں دھندلے دھندلے سے کچھ عکس واضح ہوتے چلے گئے۔ اسے یاد آیا کل جب وہ ماما کے جانے کے بعد مدہوشی کی حالت میں باہر نکلا تھا تو تصویریں اس نے جیب میں رکھ لی تھیں پھر وہ خود پر کنٹرول نہ رکھ پایا تھا اور کار ایک دوسری کار سے ٹکرا گئی تھی۔ وہ باہر نکلا تھا اس نے نوجوان سے معذرت کی تھی اس کی صورت یاد نہیں تھی لیکن دل نے کہا۔
”اوہ شٹ، فوٹو گرافس اسی دوان ہی کہیں گر گئے ہیں۔“

   1
0 Comments